تمام تر ماخذات سے درج ذیل 10 راہ نما اصولوں پر روشنی ڈالی جائیگی:۔
ا۔ بچے کی عزت نفس کا خیال رکھیں
بچوں کو احساس دلانا کہ وہ نہ صرف آپ کے لئے بلکہ پوری قوم کے لئے بہت اہم ہیں۔ ان کی عزت نفس کا خیال رکھنے سے مراد ہے کہ ان کو اسی طرح ڈیل کریں جس آپ ایک معزز شہری کو ڈیل کرتے ہیں۔ ان کو سب کے سامنے ڈانٹنا یا مارنا انکی عزت نفس کو بری طرح مجروح کرتا ہے۔ان کو ہر وقت تنقید کا نشانہ مت بنائیں اگر ان سے کچھ غلط ہوجائے تو فوری رد عمل نہ دیں کچھ دن بعد ان کے سے اس غلطی پر گفتگو کریں اور ان کو درست راہ دکھائیں۔
ب۔ اچھے کام پر خوب داد دیں
تعریف یا داد کسے پسند نہیں ہمارے بچے بھی اسکے بھوکے ہوتے ہیں لہذا جب وہ کوئی اچھا کام کریں چاہے معمولی نوعیت کا ہی کیوں نہ ہو انکو خوب داد دیں۔ انکی تعریف سب کے سامنے کریں لیکن تنقید ہمیشہ اکیلے میں کریں۔ امتحان وغیرہ میں کامیابی پر انعام بھی دیں۔ آپ کا یہ عمل نکی تخلیقی صلاحیت کو بڑھاوا دے گا۔
ج۔ بچوں کے لئے وقت نکالیں
یاد رکھیں آپ کی سب قیمتی چیز جو آپ اپنے بچے کے لیئے وقف کرتے ہیں وہ آپ کا وقت ہے اور یقین جانئے آپ کے بچوں سے بڑھ کر کوئی اور اسکا حق دار نہیں۔ ڈیکھنے میں آیا ہے والدین بچوں کے لیئے دیگر آسائشیں مہیا کرنے میں صبح سے شام اور رات گئے تک کام کرتے ہیں لیکن بچوں کو مہینے میں ایک یا دو بار ہی ملتے ہیں۔ یہ طرزعمل بچوں کی شخصیت میں ایک خلا پیدا کردیتا ہے۔ آپ انجانے میں انکو اپنے سے دور اور لاپرواہ بنا دیتے ہیں اور جب آپ کو انکے وقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ آپ بے اعتنا ء ہو جاتے ہیں۔
د۔ اچھا رول ماڈل بنیں
بچے بہت اچھے مشاہد ہوتے ہیں۔ آپ کی ہر ہر چال چلن کا وہ گہرا جائزہ لیتے ہیں۔ کردار کی تبلیغ الفاظ سے زیادہ موثر اور جاندار ہوتی ہے۔ جب آپ بچے کے سامنے خود جھوٹ بولیں کہ جاو اور بول دو ابو گھر پر نہیں ہیں۔ تو اسکے بعد آپ چاہے 1 گھنٹہ سچائی کا واعظ کریں اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اپنے آنیوالے کل کی خاطر اپنے آپ میں مثبت تبدیلیاں لائیں آپ کو دیکھ دیکھ کر آپ کے بچے میں بھی وہ اوصاف پیدا ہوجائینگے۔
ہ۔ انکے مسائل پر ان سے تبادلہ خیال کریں
جس طرح آپ روز مرہ زندگی میں مسائل سے دوچار ہیں ایسے ہی آپ کے بچے بھی کسی نہ کسی مسئلہ کا شکار ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اسکی نوعیت شایدآپ کے نزدیک بہت معمولی ہو لیکن بچے کے لئے بہت بڑی اذیت کا باعث ہو۔جب آپ ان کو اتنا اعتماد دے دیں کہ وہ اپنی ہر پریشانی آپ سے بانٹ سکیں تو آپ نے انکی زندگی کو بہت حد تک آسان کردیا ہے۔ ان کے مسائل کو پوری توجہ اور انہماک سے سنیں اور جب تک وہ بات ختم نہ کرچکیں انھیں مت روکیں۔ ان کو احساس دلائیں کہ آپ پوری سجیدگی سے ان کے مسئلے کا حل نکالیں گے۔
و۔ بہت زیادہ سختی سے اجتناب کریں
آپ بچے سے ہر کام ہر وقت درست کرنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ وہ بچے ہیں۔غلطی کی صورت میں اکثر والدین فوری رد عمل دیتے ہوئے بچے کو تھپڑ جڑدیتے ہیں یاد رکھیں تھپڑ ایک عارضی علاج تو ہوسکتا ہے لیکن یہ کبھی انھیں اچھے برے کی تمیز نہیں سکھاتا۔یہ بچے میں صرف ایک ایسا خوف پیدا کرے گا جو اسے صرف آپ کے سامنے اچھا بننے پرمجبور کرے گا۔علاوہ ازیں آپ نے تھپڑ مار کر یہ سکھا دیا کہ معاملات کو گفتگو یا مذاکرات کی بجائے تشدد سے حل کرو۔ ایسے بچوں میں لڑائی جھگڑا دنگا فساد کرنے کی خطرناک عادات پیدا ہوسکتی ہیں۔
ز۔ نظم و ضبط سکھاتے رہیں
نظم و ضبط ہر گھر اور ہر معاشرے کی ضرورت ہے لیکن اس کا آغاز گھر سے ہی ہوتا ہے۔اسکا بنیادی مقصد بچے میں احساس ذمہ داری اور اپنے آپ کو ہر حال میں قابو میں رکھنا سکھانا ہے۔اس کے لیے آپ کچھ حدود وضع کرلیں اوران کی پاسداری پر داد و تحسین کے ساتھ انعامات بھی دیں۔ یہ گھریلو قوانین بہت سادہ ہونے چاہیے جیسے مقررہ وقت پر سونا اور جاگنا اور کسی کھیلنے پڑھنے کی روٹین وغیرہ۔اور خلاف ورزی پر معمولی تادیبی کاروائی جیسے کچھ دن کے لیے جیب خرچ بند کرنا یا گیمز پر پابندی لگادینا وغیرہ۔نظم و ضبط سکھانے کا دورانیہ پہلے 10 سال ہیں اسکے بعد بچے از خود اسکے عادی ہوجاتے ہیں۔
ح۔ ان سے بے لوث محبت کا اظہار کریں
والدین ہونے کے ناطے اپنے بچوں کی اخلاقی و روحانی تربیت آپ پر لازم ہے لیکن ان سے گاہے بہ گاہے محبت کا اظہار بھی کریں ۔ ان کو بتائیں آپ ان سے کتنا پیار کرتے ہیں ان کا آپ کی زندگی میں کتنا اہم مقام ہے۔ انھیں لگے کہ پوری دنیا میں ہمارے والدین زیادہ کوئی ہمارا خیرخواہ ہے نہ ان ساپیار کرنے والا ہے۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے کبھی نفرت انگیزی یا شر انگیزی کا حصہ نہیں بنتے اور نہ بڑھاپے میں اپنے والدین کو بے سہارا چھوڑتے ہیں۔
ط۔ ان کے دوستوں سے بھی واقفیت رکھیں
آپ کی ساری تربیت ایک طرف اور بری صحبت ایک طرف۔ ایک برا دوست آپ کی ساری ریاضت اور محنت کو ایک لمحے میں مٹی میں ملا سکتا ہے لہذا اپنے بچوں سے انکے دوستوں کے بارے بات کرتے رہا کریں انکے والدین کے ساتھ روابط رکھیں انکو دعوت پر مدعو کریں اور اگر کہیں لگے کہ معاملات خراب ہیں تو اپنے بچے کو احسن انداز میں سمجھائیں اور آہستہ آہستہ اس برے دوست کی صحبت سے دور کردیں۔
ی۔روز مرہ کاموں میں ان کو بھی ساتھ رکھیں
بچوں کو عملی زندگی کے نشیب و فراز سکھانا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔اس لیے ماں کو چاہیے کے وہ بیٹی کو کچن کوکنگ وغیرہ کے کاموں میں ساتھ ساتھ رکھے اسے چھوٹے کام کہے جیسے پھل دھونا سبزی کو دھونا ٹیبل کی صفائی برتن کچن میں رکھنا وغیرہ۔ اسی طرح باپ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ بازار لے کر جائے اسکے سامنے خریداری کرے اور اس کو چھوٹی چھوٹی اشیاء خریدنے کو کہے گاڑی واش کرنے میں اسکو ساتھ رکھے وغیرہ۔ اس سے وہ آنیوالے زندگی میں بہت پراعتماد ہونگے۔
حرف آخر
اگرچہ بچوں کی تربیت اور اچھا والدین بننا ایک مشکل اور جاں گسل کام ہےلیکن اس کا اجر بھی بہت بڑا ہے۔ اس کے فوائد نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورا معاشرہ حاصل کرتا ہے۔ہم میں کوئی بھی مکمل نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے مگر کوشش کرتے رہنا چاہیے اور ہم سے کوشش کا ہی کہا گیا ہے۔
آسانیاں پیدا کریں آپ کے لئے بھی آسانیاں ہوں گیں
10 Comments
ماشاءالله بہت خوبصورت تحریر ھے
ReplyDeleteحوصلہ افزائی کا شکریہ
DeleteVery informative
ReplyDeleteBohat he khoob Mian sab
ReplyDeleteVery important and thought provoking topic.
Very well written
ماشاءاللہ، بہت ہی مفید آرٹیکل لکھا آپ نے۔ بچوں کی تربیت کے لئے نہایت ہی ضروری نکات بیان کیے گئے ہیں۔
ReplyDeletev nice
ReplyDeleteMa Sha Allah... Khoobsurat Tehreer...
ReplyDeleteKhoobsurat Tehreer... Ma Sha Allah
ReplyDeleteThanks everyone۔
ReplyDeleteبہت عمدہ تحریر ہے موجودہ حالات کے تناظر میں کافی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ اللہ زور ِ قلم میں اضافہ فرمائے۔آمین
ReplyDelete