کیا مرد کا بھی جنسی استحصال ہوتا ہے؟
ہر10 میں سے ایک مرد کو زندگی میں کسی نہ کسی قسم کےجنسال( جنسی استحصال) کا سامنا کرنا پڑا۔ سروے رپورٹ
رپورٹ کے مطابق 50 فی صد کے ساتھ پہلا جنسال اسوقت پیش آیا جب انکی عمر18 سے کم تھی
زبانی جنسال کی شرح 35 فیصد اور جسمانی جنسال کی شرح 2 اعشایہ6معلوم کی گئی
رشتہ داروں کا شکار ہونے والے۔۔۔۔۔۔۔۔ 52 فیصد
اجنبیوں کا شکار ہونے والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔15 فیصد
اپنےہی گھر میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔13 فیصد
سکول میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔14 فیصد
عوامی مقامات یا کام کی جگہ پر۔۔۔۔۔۔۔۔19فیصد
اسکول اور کالج میں 14 فیصد بچے جنسال کا شکار بنتے ہیں۔ خصوصا ایسے اسکول جن میں بچوں کی تعداد زیادہ ہو اور اساتذہ کی تعداد کم ہو اور جہاں نگرانی کا مضبوط اور مربوط نظام نہ ہو۔ بڑی عمر اور بڑی جماعت کے بچے اپنے سے چھوٹے بچوں کو نشانہ بناتے ہیں۔چھوٹے بچے شرم اور خوف سے کسی کو نہیں بتاتے اور بار بار شکار بنتے رہتے ہیں۔
جن ممالک اور علاقوں میں چائلڈ لیبر کی لعنت ہے وہاں جنسال کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ کم سن بچے اپنے گھر سے ورکشاپ میں کام سیکھنے یا کرنے کی غرض سے آتے ہیں اور کچھ ہوٹلوں پر اپنےگھر کا خرچ چلانے کے لئے کام کرتے ہیں۔ ان ورکشاپس اور ہوٹلوں پر بڑی عمر کے ملازمین اور کبھی کبھار مالک یا استاد بھی ان کو ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔
عورتوں کے ہاتھوں جنسال کا شکار ہونے والوں کی شرح 3 فیصد معلوم کی گئی۔ ایسے دفاتر یا ادارے جہاں پر باس ایک خاتون ہو وہاں پر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں یا پھر خاندان یا محلے میں ایسی خواتین جنکے مرد بیرون ملک ہوں یا انکو مناسب توجہ نہ دیتے ہوں تو ایسی خواتین میں سے کچھ غلط راہ پر چل نکلتی ہیں اور عموما ان کو کم عمر لڑکے آسان ہدف معلوم ہوتے ہیں۔
جنسال ایک گھناونا اور قبیع فعل ہے چاہے شکار ہونے والی عورت ہو یا مرد۔ ہمیں اس معاشرتی ناسور کا قلع قمع کرنا ہے۔ ہر وہ شخص جو اس کا شکار ہو رہا ہے اس کی مدد کرنی ہوگی۔اسکی مدد کا سب سے پہلا قدم اسکو مذاق یا تماشہ نہیں بنانا بلکہ اس کو اس اعتماد دلائیں کہ آپ اسکی مدد کرینگے اور اس درندے کو حوالہ قانون کرینگے۔
ریاستی سطح پر ہیلپ لائن کا انتطام ہو جہاں پر شکایت کرنے والے کے کوائف کو صیغہ راز میں رکھ کر اسکی مدد کی جائے۔
سب سے بڑا کردار والدین کا ہے ان اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کا تعلق بنانا ہوگا کہ ان کا بچہ یا بچی ان سے اپنے مسائل کو بلا جھجک بیان کرے۔ان کو والدین بتائیں اگر کوئی آپ کے جنسی اعضاء کو چھوتا ہے یا گندی بات کرے تو وہ شور مچائیں یا وہاں سے بھاگ کر کسی بڑے کو بتائیں۔
3 Comments
Very helpful post. It is very necessary to take steps to save children and we should take care of them. We should keep an eye on them to avoid harassment.
ReplyDeleteyes indeed
ReplyDeletethanks for encouraging me
ReplyDelete