کیا حقیقی زندگی میں "پری زاد" جیسا کوئی کرداد اکیسویں صدی میں پایا جاتا ہے؟
پری زاد کے چاہنے والوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ ہم اس کردار کو ادبی پیمانے پر پرکھنے کی ایک مختصر سی بحث کرینگے آپ کمنٹ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں اور اس جائزے کا حصہ بنیں۔
ادب میں کسی کردار پر تنقید کرنے سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کونسے عناصر ہیں جو کسی کردار کوتخلیق کرتے ہیں۔
ادب میں سات عناصر ہیں جو ایک کردار کا تعین کرتے ہیں:۔
ا۔ سماجی ذہانت
ب۔ مہربان
ج۔ برداشت
د۔ روشن خیالی
ہ۔ استقامت
و۔ شکرگزاری
ز۔ وفاداری
ادب کے ناقدین کے وضع کردہ ان عناصر کی بنیاد پر ہم پری زاد کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔
کیا پری زاد سماجی ذہانت کا حامل ہے؟
اب تک کی کہانی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پری زاد سماجی ذہین ہے۔ اس نے پہلے دن سے اپنے بھائی اور بھابھیوں کے رویے کو نظرانداز کیا اور اپنے کام سے کام رکھا۔ محلے کے اوباش نوجوان ہوں یا ماجد جیسے متقی، وہ سب کو اتنی ہی اہمیت دیتا ہے جتنی دینی چاہیے۔لیکن دوسری طرف اسکی آدم بیزاری اور تنہائی پسندی یہ ظاہر کرتی ہے وہ سماجی ذہین نہیں بلکہ احساس کمتری کا شکار ہے۔
کیا پری زاد مہربان دل رکھتا ہے؟
یہ وہ صفت ہے جس میں مصنف نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ پری زاد صاحب کی مہربانی اپنی بہن کے لیئے تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اپنے لالچی بھائیوں اور انکی فتنہ پرور بیگمات لیئے بہت عجیب بات لگتی ہے۔ موصوف امیر ہوجانے کے بعد دل کھول کر سخاوت پر اتر آئے کبھی کبھی کہنا پڑتا ہے مال مفت دل بے رحم۔لیکن یاد رہے کہ وہ ایک ہیرو ہے اور ہیرو اگر عام لوگوں جیسا ہی ہو تو اسے ہیرو کون کہے گا۔
پری زاد میں برداشت کا مادہ ہے کیا؟
جی ہاں پری زاد میں برداشت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہے یہ انتہا کی برداشت اسکی کمزوری یا بزدلی نہیں بلکہ اس کردار کی اصل طاقت ہے۔ برداشت ہی ایسی صفت تھی جس نے پری زاد کو اپنے مقصد سے ہٹنے نہیں دیا اور وہ سیٹھ فیروز کی آنکھ کا تارا بنا۔
پری زاد کتنا روشن خیال ہے؟
پری زاد ایک روشن خیال مرد ہے جو اپنی بہن کی تعلیم کے لئے بھائیوں کے سامنے کھڑا ہوا۔ روشن خیالی اور لبرل ازم میں فرق جانتا ہے اسی لئے وہ یورینورسٹی کی چکا چوند رنگینی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اپنے فن سے مہ پارہ کے قریب ہو گیا۔
کیا پری زاد میں استقامت کی صفت پائی جاتی ہے؟
تو جناب استقامت ہی پری زاد کو اصل ہیرو بناتی ہے معاشرے کے ناروا سلوک اور اپنوں کی بے اعتنائی کو پس پشت ڈال کر وہ اپنے مقصد کے حصول میں لگا رہا۔ جب اس نے جانا لیا کہ میری شخصیت کے عیب صرف امارت ہی چھپا سکتی ہے تو وہ چل پڑا اور منزل پر پہنچ کے دم لیا۔
پری زاد کتنا شکر گزار ہے؟
مصنف نے اس خوبی کے ساتھ بھی انصاف کیا اور پری زاد کی شخصیت میں شکر گزاری بھی بدرجہ اتم رکھی۔ وہ اپنے تمام محسنوں کو بھی نہیں بھولا اور سب سے ایسے ملا جیسے ملنا چاہیے تھا۔بے پناہ دولت اور طاقت بھی اسکے اندر تکبر کا شائبہ نہیں آنے دیا۔
کیا پری زاد وفادار ہے؟
وفاداری تو پری زاد کا دوسرا نام کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وفا اپنے دوستوں سے ہو یا سیٹھ فیروز سے پری زاد کا کوئی ثانی نہیں ملتا۔ موجودہ مقام وفاداری کا ہی تو صلہ ہے۔اگر وہ سیٹھ فیروز کریم سے غداری کرتا تو اسکی دولت کی بجائے اسکی گولی کا حقدار بنتا۔
حرف آخر
افسانوی لحاظ سے پری زاد کا کردار تمام ضابطے نبھاتا ہے لیکن حقیقی دنیا میں کیاکوئی پری زاد ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہی ملے گا۔ اگر آپ حقیقی دنیا میں کسی پری زاد کو جانتے ہیں تو کمنٹ میں بتائیں۔
2 Comments
Agreed, very logical and concise review of Parizaad
ReplyDeleteWhy did you delete my comments
ReplyDelete