سیالکوٹ میں ہونے والے دلخراش واقعے نے پوری قوم کو شرمندہ کردیا۔
ایک غیر ملکی اور غیر مسلم کو ایک مشتعل ہجوم نے ناموس رسالت کے نام پر سر عام عدالت لگا کر اسکو انتہائی بے دردی سے قتل کیا اور اسکی لاش کو جلا ڈالا۔
انتہا پسندی کیسے جنم لیتی ہے؟
یہ مہلک وائرس ہمارے معاشرے کے مذہبی ، سیاسی ، اور سماجی اعضاء کو شکار بناتا ہے۔انتہا پسندی کے عفریت سے نبردآزما ہونے کے لئے ہمیں پہلے ان عوامل کی کھوج لگانی ہوگی جو انتہا پسند سوچ کا باعث بنتے ہیں۔
الف۔ خارجیت
اس اصطلاح کا اطلاق عموما مذہبی طبقے پر کیا جاتا ہے جبکہ یہ سیاسی اور سماجی طبقے پر بھی فٹ آتا ہے۔ خارجیت کیا ہے؟ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو طاقت کے زور پر بندوق کی نوک پر اپنے نظریہ کو نافذ کرنے کا نام ہے۔جو آپ سے جرات اختلاف کرے آپ اسکو واجب القتل قرار دے دیں۔اس سوچ کا عملی مظاہرہ ہمیں شیعہ سنی فسادات کی شکل میں نظر آتا ہے اور کبھی الیکشن کے موقع پر ۔ جب ایک فرد دوسرے کی صرف اس لئے جان لے لیتا ہے کہ وہ مختلف یا مخالف نطریہ رکھتا ہے۔
ب۔ انصاف کی عدم دستیابی
جس معاشرے سے عدل وانصاف ناپید ہوجائے وہاں انتہا پسندی کے پودے کو پروان چڑھنے کے لئے ایک سازگار ماحول دستیاب ہوجاتا ہے۔یہ ناانصافی اگر عالمی سطح پر ہو تو یہ علیحدگی پسند تحریکوں کو پیدا کرتی ہے اور اگر ملکی یا علاقائی سطح پر ہو تو متحارب گروہوں کو جنم دیتی ہے۔ جب عدالت انصاف نہیں دیتی تو مظلوم گولی اور تلوار سے انصاف کے حصول کے لئے ہر انتہا تک
جانے کو تیار ہوجاتا ہے۔
ج۔ فرقہ واریت و تکفیریت
رنگ، نسل، اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم ایک فطری عمل ہے لیکن اس تقسیم کو اسقدر اہمیت دینا کہ دوسرے رنگ، نسل یا فرقے کا فرد آپ کو دشمن نظر آنا شروع ہو جائے تو اسے فرقہ واریت کہا جائے گا اور تکفیریت یہ ہوگی کہ کسی مخصوص سوچ یا نسل کے حامی کو آپ واجب القتل قرار دے دیں اور اسکے قتل کو حصول جنت کا وسیلہ بنا کر پیش کردیں۔ آج بدقسمتی سے
وطن عزیز پاکستان میں یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔
د۔ عدم برداشت کا کلچر
بعض معاشروں اور علاقوں میں عدم برداشت نے باقاعدہ انکے کلچر میں جگہ بنالی ہے۔ نسل در نسل دشمنیاں کئی معصوم زنڈگیوں کو کھا چکی ہیں۔ایسےمعاشروں میں باہمی اختلافات کو بات چیت اور مذاکرات سے حل کرنے کا رواج نہیں ہوتا۔ اپنی بات کو دلیل سے منوانے کی اہلیت نہیں ہوتی تو طاقت بازو کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جسکے پاس اسلحہ اور ہتھیار ہوگا وہ اسکے استعمال سے دریغ نہیں کریں گے۔
ہ۔ معاشی وسماجی محرومیاں
انتہا پسندی اور جرائم میں اضافے کا ایک سبب معاشی اور سماجی محرومیاں بھی ہیں۔ یہ محرومیاں عدم مساوات، خاندانی نظام کا کمزور پڑ جانا، معاشی طبقات میں خلیج کا بڑھ جانا، امراء کی بے جا نمود اور ایکدوسرے سے آگے بڑھ جانے کی اندھی دوڑ وغیرہ ہیں۔ یہ محرومیاں جب حد سے بڑھ جائیں تو ڈپریشن کا باعث بنتی ہیں۔ جب کسی فرد کو من چاہا عہدہ یا زندگی کا ساتھی نہیں ملتا تو لا محالہ انتہا پسندی پیدا کرتی ہے۔
ز۔ صحت مند سرگرمیوں کا فقدان
کھیل اور فنون لطیفہ ذہنی ڈپریشن اور فرسٹیشن کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جہاں کھیل کے میدان نہ ہوں اور فنون لطیفہ کی حوصلہ شکنی کی جائے وہاں نوجوان نسل میں اسپورٹ مین شپ پیدا نہیں ہوپاتی۔ اور نتیجتا انتہا پسند طبیعت پیدا ہوجاتی ہے۔
13 Comments
ماشاءاللہ تعالیٰ بہت خوب
ReplyDeleteبہت خوبصورت تحریر
ReplyDeleteبہت اچھی کاوش ہے ماشاء اللہ
ReplyDeleteمجھے تحریر کے اختتام پر کنکلوژن کی کمی محسوس ہوئی ہے
بہت شکریہ۔ انشاءاللہ وہ بھی اپ ڈیٹ کرتا ہوں
Deleteاعلیٰ تحریر
ReplyDeleteGreat job
ReplyDeleteBohot Khoob Janab... Meri na-qas ra'ay mein inn tamaam ehem asbaab ke ilawa andhi taqleed aur taleem o Tarbiyat ki mo'asar andaaz mein tarweej na hona bhi hain...
ReplyDeleteآپ نے بلکل درست فرمایا۔ اندھی تقلید بھی بہت نقصان کا سبب پے
DeleteAoa
DeleteMian sb I agree with the content of the article. An impressive attempt.
Your words mean a lot to me.
DeleteWonderful bhai jan
ReplyDeleteMasha Allah achi kawesh well done
ReplyDelete100%true
ReplyDelete